نظام شمسی

(Solar System) نظام شمسی


نظام شمسی سورج اور ہر وہ چیز پر مشتمل ہے جو سورج کے گرد چکر لگاتی ہے یا گھومتی ہے۔ اس میں آٹھ سیارے اور ان کے چاند، بونے سیارے، اور لاتعداد ایسٹرائڈز، کومٹ اور دیگر چھوٹی برفیلی اشیاء شامل ہیں۔ تاہم ان تمام چیزوں کے باوجود نظام شمسی کا بیشتر حصہ خالی جگہ ہے۔نظام شمسی خود ستاروں اور دیگر اشیاء کے ایک بہت بڑے نظام کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے جسے ملکی وے گلیکسی کہا جاتا ہے۔ ملکی وے گلیکسی سپائرل شکل کی ہے ۔ ہمارا نظام شمسی گلیکسی کے جس بازو میں واقع ہے اس کو اورین ارم کہتے ہیں نظام شمسی 230 ملین سال میں ایک بار گلیکسی(کہکشاں) کے مرکز کے گرد چکر لگاتا ہے۔ ملکی وے گلیکسی ان اربوں کہکشاؤں میں سے صرف ایک ہے جس کے نتیجے میں کائنات بنتی ہے۔

 



 

Sun:

نظام شمسی کے مرکز میں ایک ستارہ ہے جسے سورج کہتے ہیں۔ یہ نظام شمسی کی سب سے بڑی شے ہے۔ سورج کی کشش ثقل نظام شمسی کو ایک ساتھ رکھتی ہے، سب سے بڑے سیاروں سے لے کر ملبے کے چھوٹے ذرات تک - کو اپنے مدار میں رکھتی ہے سورج نظام شمسی میں موجود تمام مواد کا 99 فیصد سے زیادہ پر مشتمل ہے۔ سورج ہائیڈروجن اور ہیلیم گیسوں کا ایک بہت گرم گیند ہے۔ یہ اپنے کور میں موجود ہائیڈروجن کو مسلسل ہیلیم میں تبدیل کرتا رہتا ہے۔ یہ عمل بڑی مقدار میں تابکاری، یا توانائی دیتا ہے۔ زمین پر زندہ چیزیں روشنی اور حرارت کی شکل میں اس توانائی پر منحصر ہیں۔ یہ وزن کے لحاظ سے %73 ہائیڈروجن، %25 ہیلیم اور %2 دیگر عناصر (کاربن، نائٹروجن، آکسیجن، آئرن، سلکان، میگنیشیم اور سلفر) کے مرکب پر مشتمل ہے۔ سورج ایٹمز کے لحاظ سے %92 ہائیڈروجن، %7.8 ہیلیم پر مشتمل ہے سورج کا ڈایا میٹر 864,938 میل (1.3927 ملین کلومیٹر) ہے سورج کا سرکمفرنس 2,715,396 میل ( 4,370,006 کلومیٹر) ہے سورج کا ماس 30^10 × 1.989 کلوگرام ہے سورج اپنے ایکسس کے گرد 18 کلومیٹر پر سیکنڈ کی رفتار سے گردش کرتا ہے اور اپنے ایکسس کے گرد ایک چکر زمینی27 دنوں میں مکمل کرتا ہے سورج کی عمر 4.603 بلین سال ہے سورج کی روشنی کو زمین تک پہنچنے میں 8 منٹ 20 سیکنڈ کا ٹائم درکار ہوتا ہے
سورج کا گرم ترین حصہ اس کا مرکز ہے جہاں درجہ حرارت 27 ملین فورن ہائٹ یعنی 15 ملین سینٹی گریڈ ہے سورج کی سطح جس کو ہم فوٹو سفیر بھی کہتے ہیں وہاں پر درجہ حرارت 10 ہزار فورن ہائٹ یعنی 5500 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے جیسے جیسے ہم سورج کی سطح سے دور ہوتے جاتے ہیں ٹمپریچر میں اضافہ ہوتا جاتا ہے سورج کی بیرونی فضا جس کو کرونا کہتے ہیں میں درجہ حرارت 3.5 ملین فورن ہائٹ یعنی دو ملین سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے جو کہ اسی سطح یعنی فوٹو سفیر سے بہت زیادہ ہے

 
 

Solar Wind شمسی ہوا

سورج کو گھیرنے والی گیسیں چھوٹے ذرات کا ایک دھارا (چارج پارٹیکلز) نکالتی ہیں جسے شمسی ہوا کہتے ہیں۔ یہ پورے نظام شمسی میں باہر کی طرف بہتا ہے۔ شمسی ہوا ارورہ کا سبب بنتی ہے، زمین کے کچھ حصوں میں رات کے وقت آسمان پر رنگین روشنیاں نظر آتی ہیں ان کو ارورہ لائٹس کہتے ہیں۔ شمالی نصف کرہ یعنی نارتھ ہیمسفیر میں ان ارورہ کو نارتھ رن لائٹس کہا جاتا ہے۔


 
 

Asteroids ایسٹرائڈز

دھات اور چٹان کے لاکھوں چھوٹے ٹکڑے بھی سورج کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ زیادہ تر ایسٹرائڈز یعنی سیارچے مریخ اور مشتری کے درمیان ایک حلقے میں پائے جاتے ہیں۔ بڑے ایسٹرائڈزسیکڑوں میل قطر کے ہوتے ہیں، لیکن زیادہ تر بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ چھوٹے ایسٹرائڈز باقاعدگی سے زمین پر گرتے ہیں یا چمکتے ہوئے آسمان میں جلتے ہیں۔

 
 

Comets کومٹ

کومٹ گندگی اور برف کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہیں۔ جو بیضہ کی شکل کے بہت لمبے راستوں میں سورج کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ جب وہ سورج کے سب سے قریب ہوتے ہیں تو سورج کی تابکاری ان کی چمک کا باعث بنتی ہے۔ زیادہ تر کومٹ بہت چھوٹے یا بہت دور ہوتے ہیں جو کبھی بھی زمین سے نظر نہیں آتے۔ کومٹ بیرونی نظام شمسی کے دو حصوں سے آتے ہیں: کوئپر بیلٹ اور اورٹ کلاؤڈ۔

 
 

Planets

سورج کے بعد نظام شمسی کی سب سے بڑی اشیاء سیارے ہیں۔ سورج کے قریب سے ترتیب میں، یہ سیارے عطارد (مرکری)، زہرہ (وینس)، زمین، مریخ، مشتری (جو بیٹر)، زحل، یورینس اور نیپچون ہیں۔ ان میں سے اکثر حلقوں کی شکل کے راستوں میں سورج کے گرد چکر لگاتے آٹھ سیارے سورج کے گرد گھوم رہے ہیں ان میں سے ایک ہماری زمین بھی ہے سیارے کی اپنی کوئی روشنی نہیں ہوتی جبکہ ستاروں کی اپنی روشنی ہوتی ہے سیارے سورج کی روشنی کو استعمال کرتے ہیں سیارے اپنے محور کے گرد بھی گردش کرتے ہیں اور سورج کے گرد بھی گردش کرتے ہیں اپنے محور کے گرد گردش سے رات دن تبدیل ہوتے ہیں جبکہ سورج کے گرد ایک چکر مکمل کرنے سے سال مکمل ہوتا ہے ہماری زمین 365 دنوں اور چھ گھنٹوں میں سورج کے گرد ایک چکر مکمل کرتی ہے اور اپنے محور کے گرد 24 گھنٹوں میں ایک چکر مکمل کرتی ہے سیارے اپنے محور کے گرد مغرب سے مشرقی طرف گھوم رہے ہیں جب کہ دو سیارے ایسے ہیں جو مشرق سے مغرب کی طرف گھومتے ہیں ان میں سے ایک وینس اور دوسرا یورینس ہے نظام شمسی کا پہلا سیارہ مرکری ہے مرکری نظام شمسی کا سب سے چھوٹا سیارہ ہے اور یہ سورج کے قریب ترین بھی ہے سب سے چھوٹا سال مرکری پر ہوتا ہے اس کا کوئی چاند نہیں ہے مرکری کا سال زمینی 88 دنوں کے برابر ہے نظام شمسی میں دوسرے نمبر پر جو سیارہ ہے وہ وینس ہے وینس نظام شمسی کا گرم ترین سیارہ ہے اور نظام شمسی کا سب سے روشن سیارہ بھی وینس ہے وینس زمین کے قریب ترین سیارہ ہے وینس پر سورج مغرب سے طلوع ہوتا ہے.. نظام شمسی میں تیسرے نمبر پر جو سیارہ ہے وہ ارتھ ہے یعنی ہماری زمین ۔ زمین کو بلیو پلانٹ بھی کہتے ہیں یہ نظام شمسی کا واحد سیارہ ہے جہاں پر زندگی کا وجود پایا جاتا ہے سورج کی روشنی کو زمین تک پہنچنے میں 499 سیکنڈ درکار ہوتے ہیں یعنی 8.3 منٹ۔ زمین کا ایک چاند ہے جو کہ زمین کے گرد گھومتا ہے ۔ چاند کی روشنی کو زمین تک پہنچنے میں 1.3 سیکنڈ کا وقت درکار ہے ۔ زمین نظام شمسی کا پانچواں بڑا سیارہ ہے نظام شمسی کے پہلے چار سیارے ٹھوس شکل میں ہیں اور آخری چار گیسی شکل کے ہیں ۔ زمین کے بعد نظام شمسی میں جو سیارہ ہے وہ مریخ ہے ۔ مریخ کو ریڈ پلانٹ بھی کہتے ہیں مریخ کے دو چاند ہیں ۔ مریخ کے بعد جوپیٹر آتا ہے جو بیٹر نظام شمسی کا سب سے بڑا سیارہ ہے یہ زمین سے 11 گنا بڑا ہے ۔ جوپیٹر کے 95 چاند ہیں ۔ جوپیٹر اپنے محور کے گرد بہت تیز چکر لگاتا ہے اس لیے سب سے چھوٹا دن یہاں پر ہوتا ہے 10 گھنٹوں کا ۔ نظام شمسی میں جو بیٹر اور مریخ کے درمیان ایک بیلٹ موجود ہے جس کو ایسٹرائڈ بیلٹ کہتے ہیں ۔ ایسٹرائڈ بڑی بڑی چٹانیں ہیں جو کہ مریخ اور جوپیٹر کے درمیان گردش کر رہی ہیں جوپیٹر کو سیف گارڈ آف دی ارتھ بھی کہتے ہیں کیونکہ جوپیٹر کی گریوٹی کی وجہ سے ایسٹرائڈ زمین کی طرف نہیں آتے ۔ سورج سے چھ نمبر پر نظام شمسی کا جو سیارہ ہے وہ زحل ہے ۔ زحل نظام شمسی کا سائز کے اعتبار سے دوسرا بڑا سیارہ ہے اس کے 140 چاند ہیں ۔ نظام شمسی میں ساتویں نمبر پر یورینس آتا ہے یورینس کو گرین پلانٹ بھی کہتے ہیں یہاں بھی سورج مغرب سے نکلتا ہے یورینس کے 27 چاند ہیں ۔ سب سے بڑا سال نیپچون پر ہوتا ہے سورج سے بہت دور ہے اس لیے سرد ترین سیارہ ہے اس کے 14 چاند ہیں سائنسدان پلوٹو کو نواں سیارہ کہتے تھے۔ لیکن 2006 میں سائنس دانوں نے فیصلہ کیا کہ پلوٹو کو بونے سیارے کہا جانا چاہیے۔

 
 

مزید پڑھنے کے لیے یہاں پر کلک کریں