آپ کے والد محترم کا نام حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ ہے
آپ کی والدہ محترمہ کا نام حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا ہے
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دادا کا نام عبدالمطلب ہے
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نانا کا نام وہب بن عبدالمناف ہے
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دادا نے آپ کا نام محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم (تعریف کیا گیا) رکھا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی والدہ نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نام احمد (بہت تعریف کیا گیا )رکھا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا خاندان قریش کہلاتا تھا جو عرب میں خانہ کعبہ کا متوالی ہونے کی وجہ سے سب سے معزز مقام رکھتا تھا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا تعلق قریش کے ایک بڑے خاندان بنو ہاشم سے تھا جو خانہ کعبہ کے متوالیوں میں سے ایک تھا
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا سلسلہ نسب کچھ یوں ہے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا کا تعلق قریش کے ایک معزز خاندان بنو زہرہ سے تھا
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی کنیت ابو القاسم تھی جو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بیٹے قاسم کی وجہ سے اختیار کی گئی تھی
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیدائش سے چھ ماہ قبل آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے والد محترم حضرت عبداللہ وفات پا چکے تھے اس لیے یتیمی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مقدر ٹھہری اور یہ بڑی مشکل صورتحال کا نام ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خاندان کو مرحوم کا بیٹا ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بڑی محبت تھی اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیدائش کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عرب کے دستور کے مطابق قبیلہ بنی سعد کی عورت حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے سپرد کیا گیا کیونکہ بنی سعد خالص عربی فصاحت کے لیے مشہور تھے دیہاتوں میں کھلی فضا میں پرورش پانے اور خالص عربی زبان سیکھنے کے لیے بچوں کو بھیجا جاتا تھا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم وہاں چار سال تک رہے اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ابو لہب کی لونڈی صوبیہ نے بھی دودھ پلایا . حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہا کی دو لڑکیاں انیسہ بنت حارث اور حذیفہ بنت حارث تھیں حذیفہ کا لقب شیما تھا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بچپن میں ان کے ساتھ کھیلے جنگ حنین میں اس قبیلے کے لوگ قید ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے رضایت کی وجہ سے ان کو رہا کر دیا حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالی عنہااور ان کے بیٹے عبداللہ اور شیما نے سلام قبول کر لیا تھا
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم چار سال کے تھے کہ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالی عنہا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو لے کر مکہ والدہ سے ملوانے کے لیے آئیں لیکن حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہ نے مکہ میں وبا کے پیش نظر ان کو وآپس کر دیا واپسی کے بعد حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس قیام کے دوران چوتھے یا پانچویں شق صدر کا واقعہ پیش آیا حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے صحیح مسلم میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو پکڑ کر لٹایا اور سینہ چاک کر کے دل نکالا پھر دل سے ایک لوتھڑا نکال کر فرمایا یہ تم سے شیطان کا حصہ ہے پھر دل کو تھال میں زمزم کے پانی سے دھویا اور پھر اسے جوڑ کر اس کی جگہ لوٹا دیا.
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنی والدہ کے پاس تھے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عمر چھ سال تھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی والدہ ام ایمن کے ساتھ عبدالمطلب کی معیت میں مدینہ تشریف لے گئیں یہاں آنے کا مقصد اپنے مرحوم شوہر کی قبر کی زیارت تھا لیکن اس دوران ان کو بیماری نے آ لیا ایک مہینہ بیمار رہنے کے بعد واپسی پر مکہ مدینہ شاہراہ پر واقعہ مقام ابواء میں وفات پائی اور وہیں مدفون ہوئیں یہ مقام مدینہ سے 40 میل کے فاصلے پر ہے
چھ سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بہترین دنیاوی سہاروں والدہ اور والد دونوں سے محروم ہو گئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے شفیق دادا عبدالمطلب جن کا نام شیبہ تھا نے آپ کی پرورش میں کوئی کمی نہ رہنے دی انہوں نے اپنی اولاد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کی وہ ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے ساتھ رکھتے تھے اس طرح آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تربیت میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دادا نے اہم کردار ادا کیا .
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عمر ابھی آٹھ سال دو ماہ اور دس دن تھی کہ دادا کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا اس وقت اس وقت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دادا کی عمر 120 سال تھی اس طرح آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بچپن میں ایک اور صدمے سے دو چار ہوئے
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب نے مرتے دم اپنے بیٹے ابو طالب کو وصیت کی کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سرپرستی کی ذمہ داری لیں ابو طالب حضرت عبداللہ کے سگے بھائی تھے انہوں نے سرپرستی کا حق ادا کر دیا ان کی بیوی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اپنے بچوں سے بڑھ کر سرپرستی کی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا والدہ علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنی ماں سمجھتے تھے
جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عمر 12 سال ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ شام سفر پر تشریف لے گئے ابو طالب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو طویل سفر کی وجہ سے ساتھ نہیں لے جانا چاہتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ابو طالب سے لپٹ گئے تو وہ مجبورا آپ کو تجارتی سفر میں ساتھ لے گئے
شام سفر شام کے دوران آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ملاقات عیسائی راہب بحیرا سے ہوئی بحیرا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قافلے کے پاس آیا اور کہا تمہارے درمیان ایک صالح ادمی ہے پھر مخاطب ہو کر کہا اس کے باپ کہاں ہیں ؟ مخاطب نے جواب دیا اس کے ولی و مربی موجود ہیں راہب نے کہا اس لڑکے کی حفاظت کرو اور اسےلے کر شام نہ جاؤ یہودی حسد کرنے والے ہیں مجھے اس لڑکے کی نسبت ان سے خوف ہے اس پر حضرت ابو طالب نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو واپس بھیج دیا
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عمر 15 سال تھی کہ جنگ فجار پیش آئی اس جنگ میں قریش اور بنو کنانہ ،عضل وقارہ ، بنی المصطلق اور بنو خزاعہ شریک تھے اس میں قریشی لشکر کے سپہ سالار حرب بن امیہ تھے جبکہ دوسری طرف بنو قیس تھے پہلے بنو قیس اور پھر قریش کو فتح حاصل ہوئی اس جنگ کا فیصلہ صلح پر ہوا یہ جنگ حرمت کے مہینوں میں ہوئی اس جنگ میں قریش حق پر تھے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صرف اتنا حصہ لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے چچا ؤں کو تیر پکڑاتے تھے
لڑائیوں کے متواتر سلسلے نے سینکڑوں گھرانے برباد کر دیے تھے یہ دیکھ کر بعض طبیعتوں میں اصلاح کی تحریک پیدا ہوئی جنگ فجار سے واپسی پر خاندان ہاشم، ، زہرہ اور تیم نے عبداللہ بن جد عان کہ گھر میں جمع ہو کر معاہدہ کیا کہ ہم مظلوم کی حمایت کریں گے اور ظالم مکہ میں نہ رہے گا اس معاہدے میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی شامل تھے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا میں عبداللہ بن جد عان کے مکان پر ایک ایسے معاہدے میں شریک تھا کہ مجھے اس کے عو ض سرخ اونٹ بھی پسند نہیں اور اگر دور اسلام میں اس عہد و پیمان کے لیے بلایا جاتا تو میں لبیک کہتا اس معاہدے کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ بنی زبید کا ایک آدمی سامان لے کر مکہ واپس آیا اور عاص بن وائل نے اس سے سامان خریدا لیکن رقم ادا نہ کی اس نے حلیف قبائل عبدالدار ، مخزوم ، جمح ، سہم اور عدی سے مدد کی درخواست کی لیکن کسی نے توجہ نہ دی اس کے بعد اس نے جبل ابو قبیس پر چڑھ کر چند اشعار بلند آواز میں پڑھے جس میں اپنی داستان مظلومیت بیان کی گئی تھی اس پر زبیر بن عبدالمطلب نے دوڑ دھوپ کی اور کہا یہ شخص بے یار و مددگار کیوں ہے ؟ اس کے لیے مذکورہ قبائل جمع ہوئے اور عاص بن وائل سے زبیدی کا حق دلایا اس وقت اپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عمر 20 سال تھی معاہدے میں چونکہ فضل بن فضالہ،فضل بن وداعہ اور فضل بن حارث شامل تھے اور ان لوگوں نے اس فیصلے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا اس لیے یہ معاہدہ حلف الفضول کے نام سے مشہور ہو گیا
جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جوان ہوئے تو تجارت کو دوسرے قریش کی طرح بطور پیشہ پسند فرمایا اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم شام اور یمن بھی گئے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا جو کہ مکہ کی سب سے امیر خاتون تھیں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کا مال تجارت لے کر جائیں تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دگنا معاوضہ دیں گی اس سے پہلے وہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تجارتی دیانت داری کے چرچے سن چکی تھیں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کی بات مان لی اور سامان سفر لے کر بصری یعنی شام گئے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کا غلام میسر ہ بھی تھا اس تجارتی سفر میں بہت منافع ہوا نیز میسر ہ نے جو اخلاقی محاسن آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں دیکھے وہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بیان کیے تو وہ بہت متاثر ہوئیں
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا قریش کی معزز خواتین میں سے تھیں ان کی پہلے دو شادیاں ہو چکی تھیں لیکن اس وقت وہ بیوہ تھیں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی را ست بازی ، دیانت داری اور تجارتی معاملہ فہمی سے بہت متاثر ہوئیں انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو شادی کا پیغام بھیجا جو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ابو طالب کے مشورے کے بعد قبول کر لیا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ابو طالب اور دوسرے اہل خاندان کو لے کر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے مکان پر گئے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نکاح ابو طالب نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا سے کر دیا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عمر 25 سال اور حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا کی عمر 40 سال تھی
جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عمر مبارک 35 سال ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خانہ کعبہ کی دیواروں جو کہ سلاب کی وجہ سے بوسیدہ ہو گئی تھیں کی تعمیر نو میں حصہ لیا اس کی عمارت مکمل ہو گئی اور حجر اسود کو نصب کرنے کا وقت آیا تو تمام لوگ شرف نصیب حاصل کرنا چاہتے تھے اس خواہش نے تنازع کی صورت اختیار کر لی قریب تھا کہ جنگ شروع ہو جاتی ر دو قدح کے بعد یہ طے پایا کل صبح جو شخص سب سے پہلے کعبہ میں داخل ہوگا وہ اس کا فیصلہ کرے گا دوسرے دن حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سب سے پہلے تشریف لائے تو تمام لوگ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو منصف ماننے پر رضامند ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جھگڑا مٹانے کی صورت یوں نکالی اپنی چادر بچھا کر حجر اسود اس پر رکھ دیا اور فرمایا ہر قبیلے کا ایک ایک آدمی چادر پکڑ کر اٹھائے جب چادر اس جگہ کے برابر گئی جہاں حجراسود نصب کرنا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کو اٹھا کر موزوں جگہ پر رکھ دیا اس حسن تدبیر سے ایک خون ریز جنگ ٹل گئی یہ واقعہ 605 عیسوی میں پیش آیا