نبوت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی 40 سالہ زندگی نبوت کے ضمن میں ابتدائیہ کی حیثیت رکھتی ہے غیر معمولی صورتحال آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ شروع ہی سے تھی بچپن اور جوانی کی پاک باز زندگی اس معاشرے میں بذات خود معجزہ کا درجہ رکھتی تھی والدہ دادا اور چاچا نے آپ کے اندر غیر معمولی نشانیوں کو بھانپ لیا تھا آپ کی زندگی انفرادی شان اور نرالہ پن رکھتی تھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا سینہ توحید سے روشن اور حاضر خداؤں یعنی بتوں سے نفرت کا مرکز تھا غلط رسومات اور مشرکانہ افعال سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم دور رہتے تھے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے قریش کے غیر انسانی اصول و ضوابط اور نسلی و مذہبی برتری سے ہمیشہ گریز کیا
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قدم مبارک جس تیزی سے اعلان نبوت کی طرف بڑھ رہے تھے اس قدر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طبیعت خلوت نشینی کی طرف مائل ہو رہی تھی یہ نبوت کی زندگی سے پہلے کا تربیتی مرحلہ تھا مکہ شہر سے تین میل کے فاصلے پر غار حرا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مسکن ٹھہرا یہاں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سوچ و بچار اور اپنے انداز میں عبادت کرتے رہتے نبوت سے چھ ماہ قبل آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سچے خواب آنے لگے یہ خواب بیداری کی مانند تھے حدیث کے مطابق سچے خواب آدھی نبوت ہوتے ہیں
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عمر 40 برس ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم غار حرا میں خدا کے بارے میں سوچ و بچار میں مصروف تھے کہ جبرائیل علیہ السلام پہلی وحی لے کر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو (اقرا ء) پڑھنے کے لیے کہا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں اس پر جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سینے سے لگا کر بھینچا اور کہا پڑھیے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ا پنا سابقہ جواب دہرایا جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دوسری اور تیسری بار سینے سے لگایا اور پڑھنے کی درخواست کی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا مجھے پڑھنا نہیں آتا اس پر جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر پہلی وحی نازل کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ آیات پڑھوائیں
یہ 16 اگست 610 عیسوی 17 رمضان کا واقعہ ہے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پہلی وحی پر بہت پریشان ہوئے اور گھر آ کر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا مجھے کپڑا ااوڑ ھا دو . مجھے کپڑا اوڑ ھا دو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کپڑا اوپر لے کر آرام کرنے کے بعد کچھ طبیعت پرسکون محسوس کی تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کو وحی کے متعلق بتایا تو انہوں نے عرض کیا
بشارت ہو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ثابت قدم رہیں مجھے توقع ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس امت کے نبی ہوں گے اللہ تعالی ہر حال میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حفاظت کرے گا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم رشتہ داروں کا خیال رکھنے والے ، سچے ، امانت دار ،غریبوں کا بوجھ اٹھانے والے ، ناداروں کی دستگیری کرنے والے ، مہمان نوازی کرنے والے اور راہ حق میں مددگار ہیں اس لیے اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا .
اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئی جو تورات و انجیل کے عالم تھے تمام واقعہ بیان کیا ورقہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے واقعہ سن کر کہا یہ وہی فرشتہ ہے جو اللہ نے موسی علیہ السلام پر نازل کیا تھا اے کاش میں اس وقت تک زندہ رہوں جبکہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو شہر سے نکالیں گے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پوچھا وہ مجھے شہر سے کیوں نکالیں گے ورقہ بن نوفل نے جواب دیا آج تک جو بھی آپ جیسا پیغام لایا اس سے عداوت کی گئی اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ضرور مدد کروں گا
پہلی وحی کے بعد چھ ماہ تک وحی کی آمد منقطع رہی اس عرصے کو فترتہ الوحی یعنی وحی کے رک جانے کی مدت کہا جاتا ہے اس کے بعد سورہ مدثر کی یہ آیات نازل ہوئیں
اس کے بعد وحی کا سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات تک مسلسل جاری رہا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طبیعت گراں بار محسوس کرتی شدید سردی پر پسینہ چھوٹ رہا ہوتا اگر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اونٹنی پر سوار ہوتے تو اونٹنی وحی کے بوجھ سے پریشان ہو جاتی تھی
دوسری وحی میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دعوت تبلیغ کا حکم دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ کام شروع کر دیا اس دور میں یہ کام خفیہ طور پر جاری رہا یہی وہ عظیم مرحلہ ہے جس میں سلام قبول کرنے والوں کی فضیلت دوسرے مسلمانوں پر ثابت ہو گئی ان لوگوں کو ہی جنت کی بشارت اور مسلمانوں کی قیادت ملی یہ گروہ دنیا وہ آخرت میں مقام کے اعتبار سے مسلمان میں سب سے زیادہ بلند تھا خلفائے راشدین اور عشرہ مبشرہ انہی میں سے تھے
سب سے پہلے مردوں میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ، خواتین میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا ، بچوں میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور غلاموں میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام قبول کیا گویا یہ چاروں افراد بارش کا پہلا قطرہ تھے اور یہی کسی تحریک کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتا ہے اس لیے اسلام میں ان کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے اور ان کی وجہ سے اسلام کا سہارا ملا
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اس تحریک کا ابتدائی اثاثہ تھے جن کا اثر و رسوخ مکہ معظمہ میں بہت تھا ان کی تبلیغ سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ جیسے اہم لوگ مسلمان ہوئے یہ لوگ بھی اسلام کا بہترین سرمایہ تھے آگے چل کر انہی لوگوں نے سلام کی خدمت و ترقی اور استحکام میں اہم کردار ادا کیا
تبلیغ السلام کا دائرہ آہستہ آہستہ وسیع ہوتا چلا گیا اور کچھ اور لوگوں نے اسلام قبول کر لیا ان میں حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت خباب رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت ارقم مخزومی رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت عثمان بن مظعون ، حضرت صہیب رومی رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت ابو زر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ شامل تھے ان تمام مسلمانوں کا اجتماع حضرت ارقم رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر میں خفیہ طور پر ہوتا تھا نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کو ا سلامی تعلیمات سے آگاہ کرتے اور ان کی تربیت کرتے تھے یہ مرحلہ تین سال تک جاری رہا اس دور تک اسلام لانے والوں کی تعداد 40 کے لگ بھگ تھی یہ وہ ہستیاں ہیں جو اسلام کے لیے بہار تازہ کا باعث بنیں
نبوت کے چوتھے سال آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اعلانیہ تبلیغ کا حکم دیا گیا اس کا آغاز اللہ تعالی کے اس حکم سے ہوا ( سورہ حجر آیت نمبر 94 ترجمہ -پس جس چیز کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اسے اعلانیہ بیان کرو ) اس طرح ایک مشکل اور کٹھن دور کا آغاز ہوا
کھلی دعوت کا آغاز آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس طرح کیا کہ کوہ صفا پر چڑھ کر قریش کو پکارا تو بہت سے لوگ جمع ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا اے قوم قریش اگر میں تمہیں خبر دوں کہ صبح کو یا شام کو اس پہاڑی کے پیچھے سے ایک لشکر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم لوگ اسے سچ جانو گے سب نے کہا ہاں کیونکہ ہم نے تمہیں ہمیشہ سچ بولتے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تو پھر سن لو کہ اگر تم ایمان لاؤ گے تو تم پر سخت عذاب نازل ہو گا یہ سن کر تمام لوگ جن میں ابو لہب شامل تھا بڑبڑاتے واپس چلے گئے اور کہتے جا رہے تھے کہ خواہ مخواہ ہمیں زحمت دی اور ہمارا وقت ضائع کیا اس کے بعد خاندان میں تبلیغ کی گئی
اس کے بعد قرآن مجید میں یہ آیت نازل ہوئی ( سورت شعراء آیت نمبر 214 ترجمہ - اور اپنے نزدیک کے خاندان والوں کو اللہ سے ڈرا ) اس آیت کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا دعوت کا سامان کرو یہ درحقیقت اعلانیہ تبلیغ اسلام کا پہلا موقع تھا جس میں بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کو جمع کیا گیا تھا نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کھانے کے بعد کھڑے ہو کر فرمایا میں وہ چیز لے کر آیا ہوں جو دین اور دنیا دونوں کے لیے کافی ہے اس بار گراں اٹھانے میں کون میرا ساتھ دے گا تمام مجلس سناٹا میں آگئی دفعتاً حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اٹھ کر کہا گو مجھ کو آنکھوں کی تکلیف ہے گو میری ٹانگیں پتلی ہیں اور گو میں سب سے نو عمر ہوں تا ہم میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ساتھ دوں گا
مولانا شبلی نے قریش کے رد عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے اب مسلمانوں کی مقول جماعت تیار ہو گئی تھی جن کی تعداد 40 سے زیادہ تھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حرم کعبہ میں جا کر توحید کا اعلان کیا کفار کے نزدیک یہ حرم کی سب سے بڑی توہین تھی اس لیے ایک ہنگامہ برپا ہو گیا اور ہر طرف سے لوگ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ٹوٹ پڑے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پہلے خاوند سے فرزند حارث بن ابی ہالہ کو خبر ہوئی دوڑتے ہوئے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بچانا چاہا اس کوشش میں وہ شہید ہو گئے اسلام کی راہ میں یہ پہلا خون تھا جس سے سرزمین مکہ رنگین ہوئی
حالات کی بھرپور سختی کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے محفلوں میلوں اور بازاروں میں اسلام کی تبلیغ کا کام جاری رکھا گھر گھر جا کر لوگوں کو توحید کا پیغام دیا اس کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم زنا ، جوا ، چوری اور ڈاکہ جیسی اخلاقی برائیوں سے بھی منع کرتے تھے اب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اعلانیہ بت پرستی اور شرک
کی مخالفت کر رہے تھے اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت مشرکین مکہ کو گوارا نہ تھی
اب ہم قریش کی مخالفت کے اسباب پر غور کرتے ہیں
قریش کی سیادت کو خطرہ
بت پرستی کی مخالفت
باپ دادا کے دین سے قریش کی محبت
جاہلانہ رسم و رواج پر تنقید
بنو ہاشم سے دشمنی
بد اخلاقیوں پر تنقید
نسلی تفاخر
مساوات کا خوف
ہٹ دھرمی
قبالی نظام سے اسلام کا تصادم
معاشی مفادات